اسلامی تعلیمات میں اللہ کے نیک بندوں اور اولیاء کرام کی عزت و تعظیم کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا اور دعائیں مانگنا اہل سنت والجماعت کا مسلک رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس سوال کا جائزہ لیں گے کہ “غوث المدد کہنا“ شرعی طور پر کیسا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے۔
غوث المدد کہنا: کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟
“یا غوث المدد” کہنا کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اللہ کے ولی، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو وسیلہ بناتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرے۔ یہ عمل جائز ہے بشرطیکہ یہ عقیدہ ہو کہ حقیقی مددگار صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اولیاء کرام وسیلہ کے طور پر دعا میں شامل کیے جاتے ہیں۔
قرآن مجید سے وسیلہ کا ثبوت
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ”
(سورۂ مائدہ: 35)
ترجمہ: “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔”
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ اختیار کرنا قرآن کے مطابق جائز اور مستحسن عمل ہے۔
غوث المدد کہنا: حدیث مبارکہ کی روشنی میں
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو سکھایا کہ اللہ کے نیک بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں نابینا شخص نے نبی اکرم ﷺ کے وسیلے سے دعا کی، جسے نبی ﷺ نے منظور فرمایا۔
اولیاء اللہ سے استغاثہ کی اہمیت
“یا غوث المدد کہنا” دراصل سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو وسیلہ بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ عمل روحانی قربت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔
شرائط اور عقیدہ
حقیقی حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا ضروری ہے۔
اولیاء کرام کو اللہ کے مقرب بندے سمجھتے ہوئے ان کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے۔
اس عمل میں شرک یا غلو سے اجتناب کیا جائے۔
نتیجہ
“غوث المدد کہنا“ اہل سنت والجماعت کے مسلک کے مطابق جائز عمل ہے، بشرطیکہ صحیح عقیدہ کے ساتھ کیا جائے۔ یہ عمل روحانی برکت اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اولیاء اللہ کے وسیلے سے مدد طلب کرنا قرآن و حدیث کے مطابق جائز ہے، اور یہ عمل امت میں صدیوں سے رائج ہے۔